COMMONLY ASKED QUESTIONS
BY NON-MUSLIMS ABOUT ISLAM

Here we try to answer the most common questions that most Non-Muslims have about Islam. 

والد – “البرڈ !  باہر مت جانا ۔بہت تیز بارش ہو رہی ہے ۔”


اوہ !لہٰذا البرڈ کے والد نے کہا “باہر کھیلنے کے لئے مت جانا “۔اس کا مطلب ہے کہ  اس کے والد نے البرڈ کو کھیلنے کے لئے ہمیشہ کے لئے منع کر چکے ۔اس کا مطلب ہے کہ البرڈ کبھی نہیں کھیل سکتا کیوں کہ اس کے والد کا حکم ہے ۔


‌بھائیوں :میرے غلط نتیجہ پر غصّہ مت ہونا ۔آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ میں مثلہ کے  حالات،پس منظر اور ماحول کو نظر انداز کرتے ہویے نتیجہ اخذ کر رہا ہوں لہٰذا میں نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ غلط ہے ۔صحیح نتیجہ اس طرح ہونا چاہیے _”البرڈ کے والد نے اسےبارش میں  باہر کھیلنے سے منع کیا (اس لئے کہ وہ بیمار نا ہوجاے )۔عام دنوں میں وہ باہر کھیل سکتا ہے ۔”

اسی طرح کسی بھی مسلے کے حالات میں اسلام دہشت گردی اوراس کے بڑھاوے کی معمانت کرتا ہے ۔لہٰذا تو چلیں اس مضمون پر غیر شعوری طور پر نظر ڈالتے ہیں اور الفاظوں پر اعتماد کرتے ہیں برخلاف اس کے کہ جو بھی ہم نے مسلے کے پس منظر سے سکھا ۔


الف _اسلام کا مطلب امن وسلامتی ہے ۔

اسلام یہ عربی لفظ سلام سے مشتق ہے جو کہ اللّه کا دین ہے ۔اللّه تعالیٰ نے انسانیت کو مختلف وحی کے ذریعے ھدایت دی ۔اور اس میں قرآن آخری کتاب ہے ۔وہ شخص جو اللّه کے دین کی پیروی کرتا ہے عربی زبان میں اسے مسلم کہتے ہیں ۔اسلام کا حقیقی مقصدامن و سلامتی پھیلانا ہے ۔اسلام نا صرف سلامتی پھیلاتا ہے بلکہ  حدود متعین کرتا ہے اور اعتدال بھی کرتا ہے ۔اسلام کا اصل مقصد ظلم و جبر ،سختی اور فریب سازی کو جڑھ  سے ختم کرنا ہے ۔عام طور پر مختلف وجوہات کے بنا پر لوگ اسلام کو غلط تصور کرتے ہیں کہ اسلام دہشت گردی پھیلاتا ہے ۔


ب – یقین کرنے یا نا کرنے کی اسلام پوری طرح سے اجازت دیتا ہے ۔


اسلام میں ہر فرد کو اختیار ہے کہ وہ اللّه کی ھدایت کا انکار یا اقرار کرے ۔اسلام یقین کرنے کے لئے جبر نہیں کرتا ۔

“۔۔دین میں کوئی زبردستی نہیں ۔۔۔قرآن :(سورہٴ 2: آیت 256)


“کہہ دو :(یہی )حق ہے آپ سب کے رب کی طرف سے ۔

جو یقین کرنا چاہے وہ یقین کرے , جو یقین کرنا نا چاہے نہ کرے ۔۔۔”(قرآن :سورہٴ ۔73 آیت ۔19) 


لہٰذا اسلام میں خطعی کوئی جبر نہیں ۔کسی کو یقین کرنے پر مجبور کرنا اسلام کے خلاف ہے ۔


ج – زندگی اٹل (قابل تعظیم )ہے – معصوم کا قتل جرم ہے اور یہ انسانیت کے خلاف ہے ۔

اسلام یا اسلامی گھر میں انسان کی زندگی کو انتہای  قابل تعظیم مانا جاتا ہے ۔ایک معصوم کی جان لینا انسانیت کے خلاف جرم ہے ۔

“۔۔۔اگر کسی نے کسی کو ناحق قتل کیا اور (یا )زمین میں فساد برپا کیا – تو یہ ایسے ہے جیسے اس نے ساری انسانیت کا قتل کیا ، اگر کوئی شخص کسی شخص کی جان بچاتا ہے تو ،یہ ایسے ہے جیسے اس نے ساری انسانیت کو بچایا ۔”(قرآن :سورہٴ 5 ، آیت 32) 


د –  اسلامی گھر میں جہاد 


اسلام زندگی کا ایک مکمل نظام ہے ۔یہ روز مرّا کی کچھ رسومات  کا نام نہیں ہے ۔یہ زندگی کے تمام پہلوں جیسے  ،روحانی ،جذباتی ،شخصیتی ،معاشی اور سماجی کا احاطہ کرتا ہے ۔ کچھ حالات میں معاشرے میں امن و سلامتی کوقائم کرنے اور  برقرار رکھنے کے لئے سختی لازمی ہو جاتی ہے ۔اسی لیے ہمارے پاس آرمی ،پولس کا نظام ،عدالت قانون ،جیل ،سزا وغیرہ موجود ہے ۔اگر ہم غلط چیزوں کی روک تھام اور ظلم و زبردستی کاخاتمہ نہ کریں تو یہ انسانیت کی زندگی کے لیے وبال بن جاے گا ۔

     ہر کوئی سکون کی زندگی گزارنے اور اسے برقرار رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو دنیاوی چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے غلط کام کرتے ہیں ۔قتل گری ،چوری چکاری ،لوٹ مار ،کسی ملک پر چڑھای یا مداخلت کرنا یہ جرم انسانیت کے ذریعے کئے جاتے ہیں ۔لہٰذا اس کا حل کیا ہے ۔؟اگر ہم ان سب کو نہ روکیں تو یہی حالات برقرار رہیں گے ۔انسان کی زندگی قابل تعظیم ہے ،اسے بچانا ضروری ہے ۔

ہم اس دور میں دیکھ رہے ہیں کہ مختلف ممالک ،ضلعے آپس میں تیل،سونا ،قدرتی گیس ،رہائش ،وسعت پانے کے لئے جنگ کر رہے ہیں ۔لیکن اسلامی نظام میں صرف 3 حالات میں جنگ کرنے کی اجازت ہے ۔


حالات  1 ۔دفعای جنگ 


اگر کوئی مظلوم ہے تو اسے پورا حق حاصل ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا ے یا جنگ کرے ۔اسلام اس کی پوری طرح سے اجازت دیتا ہے ۔ایسے حالات میں جنگ کی اجازت ہے ۔ایسے حالات میں کوئی بھی ملک مدافعتی جنگ کر سکتا ہے ۔اس جنگ کا مقصد ظلم و زبردستی کو روکنا اور امن و سلامتی کو قائم کرنا ہے ۔ 


“جن  (مسلمان ) سے جنگ کی جا رہی ہے انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیوں کہ وہ مظلوم ہیں ۔۔۔”

(قرآن : سورہٴ 22،  آیت 39) 


حالات  2 . نا گوار حالات میں جنگ و جہاد 


اگر کس علاقے پر حملہ ہو ،قتل و غارت گری ،جبر ظلم و زبر دستی اس طرح کی دہشت گردی کو روکنے کے لیے جنگ کرنے کی اجازت ہے ۔اس جنگ کا مقصد بھی سلامتی کا فروغ اور عدل و انصاف ہے ۔


“بھلا کیا وجہہ ہے کہ تم اللّه کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں اور عورتوں ،چھوٹے چھوٹے بچوں کے چھٹکارے کے لئے جہاد نہ کرو ۔؟  جو یوں دعایں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردیگار ! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا۔

(قرآن : سورہٴ ،4  . ۔آیت 75) 


حالات  3 . (آیندہ )مستقبل کے ہنگامہ کے خلاف جنگ و جہاد   


اگر کسی اسلامی حکومت کا کسی دوسری حکومت کے ساتھ امن کا معاہدہ ہے اگر مخالف حکومت کی جانب سے یہ معاہدہ دہشت گردی کرنے کی نیت سے توڑ دیا جائے تو ان حالات میں جنگ کی اجازت ہے ۔ 


قرآن ،سورہٴ نمبر 9 کی ابتدا میں ان حالات کا ذکر کیا گیا ہے ۔


مزکورہ بالا منظر نامے وہ واحد حالات ہیں جن میں جنگ کی اجازت ہے اور کوئی بھی انصاف پسند اور پر امن قوم اس بات پر متفق ہوگی کہ ان حالات میں جنگ لازمی ہے ۔ 

اسی طرح کے پروٹوکول کی پیروی آج کل کے ممالک کرتے ہیں جس میں وہ فوج ،اسلحہ ،سامان ،سرحدوں  کی حفاظت وغیرہ کے لئے اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں ۔ لیکن ، جو چیز اسلامی نظام کو دوسرے نظام سے ممتاز کرتی ہے وہ حیران کن ہے ۔ اگے پڑھے :



اگرچہ جنگ ناپسند ہے ،لیکن یہ صرف امن قائم کرنے کے لئے غیر معمولی حالات میں اجازت ہے ۔لیکن یہ اختتام نہیں ہے ۔جنگ میں بہت سارے حدود و ممانعت اور  اعتیدال ہے ۔


1 ۔ جنگ کے دوران صرف ان لوگوں پر حملہ کرنے کی اجازت ہے جو جنگ میں لڑ رہے ہیں ۔


2 ۔ کوئی عورتوں ،بچوں اور بزرگوں پر حملہ نہیں کر سکتا ۔


3 ۔ مذہبی مقامات کو تباہ نہیں کیا جا سکتا ۔


4 ۔ درختوں کو جلایا نہیں جا سکتا اور جانوروں کو تکلف نہیں دی جا سکتی ۔


5 ۔ اگر مخالفین امن پیش کرتے ہیں (اگر چہ وہ امن نہیں چاہتے ہیں، لیکن وہ صرف وقت چاہتے ہیں تو آپ کو بھی امن کا سہارہ لینا چاہیے )پھر جنگ کو روکنا چاہیے ۔


6 ۔ اگر دوشمن پناہ چاہتا ہے تو پھر انہیں حفاظت کی جگہ لے لے تاکہ انہیں نقصان نہ پہنچے ۔


7 ۔ قرآن مجید میں بہت سارے حوالے موجود ہیں جہاں اللّه تعالیٰ بار بار حکم فرماتے ہیں کہ کسی کو بھی جنگ کے دوران حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے ۔مطلب یہ ہے کہ جنگ کا مقصد ظلم کو روکنا اور صرف امن قائم کرنا ہے ۔

آج کونسا ملک مندرجہ بالا 7پروٹوکول کو اپناتا ہے ۔۔؟


اہم نوٹ  : کچھ لوگ سیاق و سباق سے ہٹ کر قرآن مجید کی آیت کا حالات اور منصوبے کی وضاحت کے بغیر حوالہ دیتے ہیں کہ اسلام دہشت گردی یا  ناپسنددیدہ تشدد کو فروغ دیتا ہے ۔

اسی طرح کے تمام آیات جنگ کی 3 اقسام میں سے ایک کے تحت آتے ہیں جیسا کے اپر ذکر کیا گیا ہے ۔

اگر آپ میرے الفاظ کی توسیق کرنا چاہتے ہیں تو سیاق و سباق سے ہٹ کر آیات سے پہلے اور بعد میں صرف 10 آیات پڑھیں ۔

سیاق و سباق سے ہٹ کر لوگ غلط نتیجے پر پہنچتے ہیں جیسے کہ میں شروع میں پہنچا ، البرٹ کے والد کی ھدایت کے بارے میں ۔


ر ۔  نتیجہ 


 ۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر کوئی بھی حالات کے مختلف غلط نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے ۔


 ۔ اسلام کا مقصد امن اور انصاف کا فروغ اور قیام ہے ۔


 ۔  اسلام کو پھیلانے کے لئے طاقت کے استعمال کی کوئی گنجائش نہیں ۔


 ۔ اسلام زندگی کو انتہائی مقدس سمجھتا ہے ۔ایک بے گناہ کا قتل  انسانیت کے خلاف جرم ہے ۔


 ۔ ظلم ،استبداد اور قتل و غارت کو روکنے اور امن و انصاف کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے صرف غیر معمولی صورت حال میں اسلام میں جنگ کی اجازت ہے ۔

***************والد – “البرڈ !  باہر مت جانا ۔بہت تیز بارش ہو رہی ہے ۔”


اوہ !لہٰذا البرڈ کے والد نے کہا “باہر کھیلنے کے لئے مت جانا “۔اس کا مطلب ہے کہ  اس کے والد نے البرڈ کو کھیلنے کے لئے ہمیشہ کے لئے منع کر چکے ۔اس کا مطلب ہے کہ البرڈ کبھی نہیں کھیل سکتا کیوں کہ اس کے والد کا حکم ہے ۔


‌بھائیوں :میرے غلط نتیجہ پر غصّہ مت ہونا ۔آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ میں مثلہ کے  حالات،پس منظر اور ماحول کو نظر انداز کرتے ہویے نتیجہ اخذ کر رہا ہوں لہٰذا میں نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ غلط ہے ۔صحیح نتیجہ اس طرح ہونا چاہیے _”البرڈ کے والد نے اسےبارش میں  باہر کھیلنے سے منع کیا (اس لئے کہ وہ بیمار نا ہوجاے )۔عام دنوں میں وہ باہر کھیل سکتا ہے ۔”

اسی طرح کسی بھی مسلے کے حالات میں اسلام دہشت گردی اوراس کے بڑھاوے کی معمانت کرتا ہے ۔لہٰذا تو چلیں اس مضمون پر غیر شعوری طور پر نظر ڈالتے ہیں اور الفاظوں پر اعتماد کرتے ہیں برخلاف اس کے کہ جو بھی ہم نے مسلے کے پس منظر سے سکھا ۔


الف _اسلام کا مطلب امن وسلامتی ہے ۔

اسلام یہ عربی لفظ سلام سے مشتق ہے جو کہ اللّه کا دین ہے ۔اللّه تعالیٰ نے انسانیت کو مختلف وحی کے ذریعے ھدایت دی ۔اور اس میں قرآن آخری کتاب ہے ۔وہ شخص جو اللّه کے دین کی پیروی کرتا ہے عربی زبان میں اسے مسلم کہتے ہیں ۔اسلام کا حقیقی مقصدامن و سلامتی پھیلانا ہے ۔اسلام نا صرف سلامتی پھیلاتا ہے بلکہ  حدود متعین کرتا ہے اور اعتدال بھی کرتا ہے ۔اسلام کا اصل مقصد ظلم و جبر ،سختی اور فریب سازی کو جڑھ  سے ختم کرنا ہے ۔عام طور پر مختلف وجوہات کے بنا پر لوگ اسلام کو غلط تصور کرتے ہیں کہ اسلام دہشت گردی پھیلاتا ہے ۔


ب – یقین کرنے یا نا کرنے کی اسلام پوری طرح سے اجازت دیتا ہے ۔


اسلام میں ہر فرد کو اختیار ہے کہ وہ اللّه کی ھدایت کا انکار یا اقرار کرے ۔اسلام یقین کرنے کے لئے جبر نہیں کرتا ۔

“۔۔دین میں کوئی زبردستی نہیں ۔۔۔قرآن :(سورہٴ 2: آیت 256)


“کہہ دو :(یہی )حق ہے آپ سب کے رب کی طرف سے ۔

جو یقین کرنا چاہے وہ یقین کرے , جو یقین کرنا نا چاہے نہ کرے ۔۔۔”(قرآن :سورہٴ ۔73 آیت ۔19) 


لہٰذا اسلام میں خطعی کوئی جبر نہیں ۔کسی کو یقین کرنے پر مجبور کرنا اسلام کے خلاف ہے ۔


ج – زندگی اٹل (قابل تعظیم )ہے – معصوم کا قتل جرم ہے اور یہ انسانیت کے خلاف ہے ۔

اسلام یا اسلامی گھر میں انسان کی زندگی کو انتہای  قابل تعظیم مانا جاتا ہے ۔ایک معصوم کی جان لینا انسانیت کے خلاف جرم ہے ۔

“۔۔۔اگر کسی نے کسی کو ناحق قتل کیا اور (یا )زمین میں فساد برپا کیا – تو یہ ایسے ہے جیسے اس نے ساری انسانیت کا قتل کیا ، اگر کوئی شخص کسی شخص کی جان بچاتا ہے تو ،یہ ایسے ہے جیسے اس نے ساری انسانیت کو بچایا ۔”(قرآن :سورہٴ 5 ، آیت 32) 


د –  اسلامی گھر میں جہاد 


اسلام زندگی کا ایک مکمل نظام ہے ۔یہ روز مرّا کی کچھ رسومات  کا نام نہیں ہے ۔یہ زندگی کے تمام پہلوں جیسے  ،روحانی ،جذباتی ،شخصیتی ،معاشی اور سماجی کا احاطہ کرتا ہے ۔ کچھ حالات میں معاشرے میں امن و سلامتی کوقائم کرنے اور  برقرار رکھنے کے لئے سختی لازمی ہو جاتی ہے ۔اسی لیے ہمارے پاس آرمی ،پولس کا نظام ،عدالت قانون ،جیل ،سزا وغیرہ موجود ہے ۔اگر ہم غلط چیزوں کی روک تھام اور ظلم و زبردستی کاخاتمہ نہ کریں تو یہ انسانیت کی زندگی کے لیے وبال بن جاے گا ۔

     ہر کوئی سکون کی زندگی گزارنے اور اسے برقرار رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو دنیاوی چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے غلط کام کرتے ہیں ۔قتل گری ،چوری چکاری ،لوٹ مار ،کسی ملک پر چڑھای یا مداخلت کرنا یہ جرم انسانیت کے ذریعے کئے جاتے ہیں ۔لہٰذا اس کا حل کیا ہے ۔؟اگر ہم ان سب کو نہ روکیں تو یہی حالات برقرار رہیں گے ۔انسان کی زندگی قابل تعظیم ہے ،اسے بچانا ضروری ہے ۔

ہم اس دور میں دیکھ رہے ہیں کہ مختلف ممالک ،ضلعے آپس میں تیل،سونا ،قدرتی گیس ،رہائش ،وسعت پانے کے لئے جنگ کر رہے ہیں ۔لیکن اسلامی نظام میں صرف 3 حالات میں جنگ کرنے کی اجازت ہے ۔


حالات  1 ۔دفعای جنگ 


اگر کوئی مظلوم ہے تو اسے پورا حق حاصل ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا ے یا جنگ کرے ۔اسلام اس کی پوری طرح سے اجازت دیتا ہے ۔ایسے حالات میں جنگ کی اجازت ہے ۔ایسے حالات میں کوئی بھی ملک مدافعتی جنگ کر سکتا ہے ۔اس جنگ کا مقصد ظلم و زبردستی کو روکنا اور امن و سلامتی کو قائم کرنا ہے ۔ 


“جن  (مسلمان ) سے جنگ کی جا رہی ہے انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیوں کہ وہ مظلوم ہیں ۔۔۔”

(قرآن : سورہٴ 22،  آیت 39) 


حالات  2 . نا گوار حالات میں جنگ و جہاد 


اگر کس علاقے پر حملہ ہو ،قتل و غارت گری ،جبر ظلم و زبر دستی اس طرح کی دہشت گردی کو روکنے کے لیے جنگ کرنے کی اجازت ہے ۔اس جنگ کا مقصد بھی سلامتی کا فروغ اور عدل و انصاف ہے ۔


“بھلا کیا وجہہ ہے کہ تم اللّه کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں اور عورتوں ،چھوٹے چھوٹے بچوں کے چھٹکارے کے لئے جہاد نہ کرو ۔؟  جو یوں دعایں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردیگار ! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا۔

(قرآن : سورہٴ ،4  . ۔آیت 75) 


حالات  3 . (آیندہ )مستقبل کے ہنگامہ کے خلاف جنگ و جہاد   


اگر کسی اسلامی حکومت کا کسی دوسری حکومت کے ساتھ امن کا معاہدہ ہے اگر مخالف حکومت کی جانب سے یہ معاہدہ دہشت گردی کرنے کی نیت سے توڑ دیا جائے تو ان حالات میں جنگ کی اجازت ہے ۔ 


قرآن ،سورہٴ نمبر 9 کی ابتدا میں ان حالات کا ذکر کیا گیا ہے ۔


مزکورہ بالا منظر نامے وہ واحد حالات ہیں جن میں جنگ کی اجازت ہے اور کوئی بھی انصاف پسند اور پر امن قوم اس بات پر متفق ہوگی کہ ان حالات میں جنگ لازمی ہے ۔ 

اسی طرح کے پروٹوکول کی پیروی آج کل کے ممالک کرتے ہیں جس میں وہ فوج ،اسلحہ ،سامان ،سرحدوں  کی حفاظت وغیرہ کے لئے اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں ۔ لیکن ، جو چیز اسلامی نظام کو دوسرے نظام سے ممتاز کرتی ہے وہ حیران کن ہے ۔ اگے پڑھے :



اگرچہ جنگ ناپسند ہے ،لیکن یہ صرف امن قائم کرنے کے لئے غیر معمولی حالات میں اجازت ہے ۔لیکن یہ اختتام نہیں ہے ۔جنگ میں بہت سارے حدود و ممانعت اور  اعتیدال ہے ۔


1 ۔ جنگ کے دوران صرف ان لوگوں پر حملہ کرنے کی اجازت ہے جو جنگ میں لڑ رہے ہیں ۔


2 ۔ کوئی عورتوں ،بچوں اور بزرگوں پر حملہ نہیں کر سکتا ۔


3 ۔ مذہبی مقامات کو تباہ نہیں کیا جا سکتا ۔


4 ۔ درختوں کو جلایا نہیں جا سکتا اور جانوروں کو تکلف نہیں دی جا سکتی ۔


5 ۔ اگر مخالفین امن پیش کرتے ہیں (اگر چہ وہ امن نہیں چاہتے ہیں، لیکن وہ صرف وقت چاہتے ہیں تو آپ کو بھی امن کا سہارہ لینا چاہیے )پھر جنگ کو روکنا چاہیے ۔


6 ۔ اگر دوشمن پناہ چاہتا ہے تو پھر انہیں حفاظت کی جگہ لے لے تاکہ انہیں نقصان نہ پہنچے ۔


7 ۔ قرآن مجید میں بہت سارے حوالے موجود ہیں جہاں اللّه تعالیٰ بار بار حکم فرماتے ہیں کہ کسی کو بھی جنگ کے دوران حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے ۔مطلب یہ ہے کہ جنگ کا مقصد ظلم کو روکنا اور صرف امن قائم کرنا ہے ۔

آج کونسا ملک مندرجہ بالا 7پروٹوکول کو اپناتا ہے ۔۔؟


اہم نوٹ  : کچھ لوگ سیاق و سباق سے ہٹ کر قرآن مجید کی آیت کا حالات اور منصوبے کی وضاحت کے بغیر حوالہ دیتے ہیں کہ اسلام دہشت گردی یا  ناپسنددیدہ تشدد کو فروغ دیتا ہے ۔

اسی طرح کے تمام آیات جنگ کی 3 اقسام میں سے ایک کے تحت آتے ہیں جیسا کے اپر ذکر کیا گیا ہے ۔

اگر آپ میرے الفاظ کی توسیق کرنا چاہتے ہیں تو سیاق و سباق سے ہٹ کر آیات سے پہلے اور بعد میں صرف 10 آیات پڑھیں ۔

سیاق و سباق سے ہٹ کر لوگ غلط نتیجے پر پہنچتے ہیں جیسے کہ میں شروع میں پہنچا ، البرٹ کے والد کی ھدایت کے بارے میں ۔


ر ۔  نتیجہ 


 ۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر کوئی بھی حالات کے مختلف غلط نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے ۔


 ۔ اسلام کا مقصد امن اور انصاف کا فروغ اور قیام ہے ۔


 ۔  اسلام کو پھیلانے کے لئے طاقت کے استعمال کی کوئی گنجائش نہیں ۔


 ۔ اسلام زندگی کو انتہائی مقدس سمجھتا ہے ۔ایک بے گناہ کا قتل  انسانیت کے خلاف جرم ہے ۔


 ۔ ظلم ،استبداد اور قتل و غارت کو روکنے اور امن و انصاف کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے صرف غیر معمولی صورت حال میں اسلام میں جنگ کی اجازت ہے ۔

***************

اپنے گناہوں کو پہچانوں اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو۔ 

جب مچھلی سمندر کی تہہ میں چلی گئی تب یونس علیے سلام کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔وہ مچھلی کے پیٹ میں ہی اپنے رب کے حضور سجدے میں گرگئے اور اپنے رب سے معافی مانگی۔

اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس مت ہو۔

انھوں نے نا اپنی تقدیر پر شکوہ کیا اورنا ہی ہمت ہاری۔بلکہ انھوں نے اپنے ہاتھ رب کی بارگاہ میں اٹھادیے۔

قرآن ٢١:٨٨ 

تو ہم نے دعا قبول کی اور اس پریشانی میں سے نجات دی اور اس طرح سے ہم ایمان والوں کو بچالیتے ہیں ۔

.دعوت اور صبر

تمہاری کاوشوں کا ثمر ملنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔

ہوسکتا ہے کے تمہارے اپنے دوست تمہارے اپنے گھر والے حق کو قبول نا کرے۔ حالانکے تم کئی سالوں سے ان کو حق کا پیغام پہنچارہے ہوں۔

اس مطلب یہ نہیں کے تم ہار مان جاو اور اپنی کوششوں سے روک جاو۔

اپنے رب کا ذکر اور دعا نہایت ہی طاقتور ذرائع ہیں ۔

یونس علیے سلام اس حقیقت سے واقف ہوے کے سمندر کی تہہ میں موجود مخلوق بھی اپنے رب کی تسبیح و پاکی بیان کرتیں تھیں۔

یہ ان کی دعا اور ذکر کی اہمیت کی یادہانی ہے۔

اپنے رب کے حکموں کی نافرمانی میں تم جتنی بھی حدیں پار کرلوں ۔سچی توبا سے رب تمہیں ان حالات سے بھی نکال دے گا اور تمہیں معاف بھی کردے گا اورتمہیں  پہلے سے مزید نعمتیں عطا کرے گا۔

یہ بات ہمیں ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ اسلام میں کسی بھی عمل یا عبادت کو صرف دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
 
فرض:-  یعنی لازمی
اگر فرض عبادت /عمل چھوٹ گیا تو گنہ گار ہوں گے۔
 
نفل:-  یعنی اختیاری۔ اگر نفلی عبادت/یا کام کیا گیا تو اس کا اجر و ثواب ملے گا۔ مگر چھوڑ دینے سے کوئی گنہ گار نہیں ہو گا۔
 
 پیغمبر محمّد ﷺ نے نماز یا کسی بھی عمل کو واجب۔ سنّت مؤکّدہ و غیر مؤکّدہ۔ یا مندوب و مستحبّات میں تقسیم نہیں کیا اور نہ کوئی درجہ بندی کی۔ یہ اصطلاحیں محمّد ﷺ کے زمانے میں استعمال نہیں ہوئِیں۔ یہ اصطلاحیں بعد کے زمانے میں فقھاء نے عوام النّاس کو سمجھانے کے لئے ایجاد کیں۔
 
قرآن کے نظریے اور محمّد ﷺ کی زندگی کو سامنے رکھ کر کسی بھی عمل کو صرف دو درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۔فرض:- لازمی
۔ نفل:- اختیاری
فقھاء نے بعد میں نوافل کی درجہ بندی کچھ اس طرح کی ہے :۔
۔ واجب:ـ یہ وہ عبادت جسے محمّد ﷺ نے اکثریت سے کیا ہے
۔ سنّتِ مؤکّدہ:۔ جسے محمّد ﷺ نے بار بار کیا ہے۔
۔ سنّتِ غیر مؤکّدہ ـ مستحب۔ مندوب ،جسے محمّد ﷺ نے کبھی کبھی کیا ہو۔
 
یہ اصطلاحات محمِّد ﷺ کی زندگی میں استعمال نہیں کی گئیں۔ اسی لئے علماء  کے بیچ میں إختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ 
جیسے:۔
 
مسالک میں چاروں مسلک کچھ اس طرح ایک دوسرے سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔
پانچ وقت کی نوافل نمازوں میں نماز میں کچھ مخصوص پہلوؤ ں کو لے کر۔ جیسے امام مالکؒ کے نزدیک فرض نماز میں حالتِ قیام میں دونوں ہاتھوں  کو سیدھا چھوڑکے کھڑا ہونا ہے۔جبکہ باقی تینوں مسلکوں میں الگ طریقے رائج ہیں۔
 
۔ امام ابو حنیفہؒ  وتر نماز کو واجب قرار دیتے ہیں جبکہ دیگر ائمہ ، امام شافعیؒ۔ امام مالکؒ۔ امام حنبلؒ وتر نماز کو سنّت مانتے ہیں۔
 
کچھ فقھی پیمانے تھے جہاں نوافل عبادات کو الگ الگ درجوں میں منقسم کیا گیا۔
 
مختصراً پانچ وقتوں کی فرض نمازوں کی تعداد کچھ اس طرح ہے:۔
فجر۔ دو رکعت
ظھر۔ چار رکعت
عصر۔ چار رکعت
مغرب۔ تین رکعت
عشاء۔ چار رکعت
 
اگر ان فرائض کو ادا نہیں کیا گیا تو اس بارے میں ہم سے سوال کیا جائے گااور ہمیں گنہ گار تصوّر کیا جائے گا۔
ان کے علاوہ باقی سب نوافل کے زمرے میں ہیں۔
****************************************
منجانب: خورشید امام
**********
 
ا. تعارف
 
زیادہ تر مسلمانوں کے ذریعہ یہ بات وسیع پیمانے پر مانی جاتی ہے کہ ایک مسلمان مرد اہل کتاب کی کسی بھی عورت سے شادی کرسکتا ہے۔ اہل کتاب عربی زبان کا لفظ ہے جس سے مراد کتاب کے افراد یا ایسے افراد ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے سابقہ ​​صحیفے دیئے تھے۔ اہل کتاب کے بارے میں عام فہم یہ ہے کہ اس سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں۔
لہذا مسلمان سمجھتے ہیں کہ ایک مسلمان مرد کسی بھی طرح کے یہودی یا عیسائی خاتون سے شادی کرسکتا ہے۔ تاہم یہ ایک غلط اور نامکمل عقیدہ ہے۔
رکیے… .. اپنا فتویٰ بینک نہ کھولیں۔ ابھی مکمل مضمون پڑھیں۔
 
ب. غلط فہمی کی وجہ
 
ہمیشہ کی طرح؛ یہ غلط فہمی اس وجہ سے ہے کہ وہ نہ تو قرآن پر یقین کرتے اور نہ هی اس پر غور کرتے هین۔ قرآن حکیم بنی نوع انسان کے لئے خداتعالیٰ کا بغیر خلط ملط کا حتمی پیغام ہے۔ اگرچہ خدا نے بار بار قرآن مجید مین حکم دیا ہے کہ وہ اس کو مضبوطی سے تھامے اور قرآن کی ہدایت کے مطابق فیصلے کرےـ لیکن مسلمان  بحیثیت مجموعی  اس میں ناکام رہے ہیں۔ عملی طور پر مسلمان اکثریت اپنے علماء کی جماعت کو قرآن  پر ترجیح دیتے ہیں۔
 
تو یہاں تک کہ اہل کتاب کے ساتھ نکاح کے معاملے مین بھی لوگ ہدایت کے حصول کے لئے قرآن پر غور و فکر نہیں کرتے ہیں اور آنکھیں بند کرکے اپنے علما کے جماعت کے پیچهے چلتے ہیں۔ کچھ مسلمان یہ مانتے ہیں کہ کسی بھی  یہودی/ عیسائی خاتون کے ساتھ شادی کی اجازت ہے اگر چہ کے وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو !!! کچھ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ آج یہودی / عیسائی کے ساتھ شادی کی اجازت ہر گز نہیں ہے !! 
لہذا ہم قرآن کو ترک کرنے کی وجہ سے ایک ہی معاملے میں مختلف اور متضاد حکم دیکھتے ہیں۔
 
نوٹ: مشرک ایک ایسے شخص سے مراد ہے جو خداتعالیٰ کے ساتھ شریک ٹهراتا ہے۔
 
ت. بُنیادی اصولوں پر نظر ثانی کرنا
 
اگرچہ مسلمان دن رات یہ قَسم کھاتے ہیں کہ “قرآن پاک خداتعالیٰ کا کلام ہے ، ہمیں اپنی زندگی میں قرآن کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہئے ، ہمیں قرآن کے ذریعہ حکمرانی کرنی چاہئے۔” لیکن جب ہدایت کی تلاش کی بات آتی ہے تو سب سے پہلے لوگ قرآن کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ اور دوسرے ذرائع کو دیکھتے هین۔
 
“رمضان کا مہینہ وه هےجس میں قرآن نازل ہوا ، لوگوں کے لئےسراسر ہدایت هےجو رہنمائی کرنے والی اور حق اورباطل کا فرق کهول کر رکھ دینے والی هے ……؟” [قرآن ، سورہ بقرہ 2: 185]
 
برائے مہربانی قرآن کے مقصد کو سمجھیں۔
یہ پوری بنی نوع انسان کے لئے ہے۔ قرآن کسی خاص فرقه ، مذہب ، نسل کے لوگون کی خصوصی ملکیت نہیں ہے۔
قرآن پاک میں واضح دلائل ہیں۔ قرآن پاک نے جو ثبوت دیئے ہیں وہ خود وضاحتی ہیں۔
قرآن ہدایت کے مقصد کے لئے ہے۔ ہمیں قرآن سے رہنمائی حاصل کرنا چاہئے۔
قرآن ایک کسوٹی ہے – اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں قرآن کا 
 فیصله آخری ہوگا۔ کیا صحیح ہے اور کیا غلط – قرآن جو فیصلہ کرتا ہے وہ حتمی ہوگا۔
  
جو لوگ قرآن کے احکام کی پیروی نہیں کرتے ہیں وہ قرآن کے مطابق کافر اور فاسق اور ظالم ہیں۔
 
…. اگر کوئی اللہ کے نازل کردہ حکم سے فیصلہ کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو  وہ کافر ہیں۔ [قرآن ، سوره مائدہ 5:44]
 
… اور اگر کوئی اللہ کے نازل کردہ حکم سے فیصلہ کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو ، وہ ظالم ہیں (ظالمون)۔ [قرآن ، سوره مائدہ 5:45]
 
انجیل کے لوگ فیصلہ کریں اس سے جوکچھ اللہ نے اس میں نازل کیا ہے۔ اگر کوئی اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ کرنے میں ناکام ہوجائے تو وہی سرکش ہیں (فاسقون) [قرآن ، سوره مائدہ 5:47]
 
ہم نے  نازل کی آپ کی طرف صحیفہ سچائی کے  ساته، اس سے پہلے آنے والے صحیفے کی تصدیق کی اور اس کی نگهبان اور محافظ، تو فیصلہ کرو ان کے درمیان اس سے جو اللہ نے نازل کیا ہے ، اور ان کی بے ہودہ خواہشوں کی پیروی نہ کرو ، جو حقیقت آپ کے پاس آیا ہے اس سے ہٹ کر… ….؛ [قرآن ، سوره مائدہ 5:48]
 
اور وه (یہ حکم دیتا ہے): اور یه که تم فیصله کرو ان کے درمیان اس سے جو اللہ نے نازل کیا ہے اور ان کی بے ہودہ خواہشوں کی پیروی نہ کرو ، لیکن ان سے ہوشیار رہو ، تاکہ وہ تمہیں اس (تعلیم) سے بہکا نہ دیں جس کو اللہ نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ اور اگر وہ روگردانی کرتے ہیں تو یقین دلائیں کہ ان کے کسی جرم کے لئے اللہ کا مقصد ہے کہ وہ انہیں سزا دیں۔ اور بےشک ان لوگون مین سے زیادہ تر سرکش ہیں۔ [قرآن ، سوره مائدہ 5:49]
 
اوپر درج آیت کریمہ یہ واضح کرتی ہے کہ اگر ہم قرآن کی ہدایت کے خلاف فیصلہ کرتے ہیں تو یہ کفر / ظلم / فِسق ہے  اور بالکل غلط ہے۔ دیکھو اللہ نے 
 اس بات پر کتنا زور دیا ہے که فیصلہ اس سے کیا جاے جو کچه اس نے نازل ہے۔
 
ث .مشرک کے ساتھ شادی کی اجازت نہیں 
 
قرآن مجید جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے آیت کی پیرو اس مسئلے پر ہماری رہنمائی کرتا ہے۔
 
 قرآن ، سورہ مائدہ 5:5 -: – – “آج تمہارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں ہیں –
 اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اور ان کے لئے تمہارا کھانا حلال ہے۔ اور پاک دامن مومن  خواتین ، اور پاک دامن  اہل کتاب  عورتیں بھی (حلال ہیں)
  ، جبکہ آپ ان کو ان کا حق مہر ادا کر دو – ۔اور عفت کی خواہش کرتے ہو ، بدکاری نہیں اور نہ ہی چھپی دوستی رکھتا ہو – اور۔ اگر کوئی شخص ایمان کا انکار ۔کرتا ہے تو ، اس کا کام بے نتیجہ ہے ، اور آخرت میں وہ (سب کی روحانی بھلائی) کھو جانے والوں کی صف میں شامل ہوگا۔
 
قرآن ، سورہ بقرہ 2: 221 – “مشرک عورتوں سے شادی نہ کرو جب تک کہ وہ یقین نہ کریں(ایمان نہ لائیں) : ایک لونڈی جو ایمان لاتی ہے کافر۔ عورت سے بہتر ہے ، حالانکہ وہ آپ کو راضی کرتی ہے۔ اور (اپنی لڑکیوں سے) مشرک کے ساتھ اس وقت تک شادی نہ کرو جب تک کہ وہ یقین نہ کریں (ایمان نہ لائیں) : ایک بندہ جو ایمان لاتا ہے کافر سے بہتر ہے ، حالانکہ وہ آپ کو راضی کرتا ہے۔ کافر (لیکن) آپ کو جہنّم کا اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن اللہ اپنے فضل و کرم سے جنت (بخشش) کی طرف اشارہ کرتا ہے اور انسانوں کے لئے اس کی نشانیاں واضح کردیتا ہے تاکہ وہ اس سے نصیحت حاصل کریں۔
 
اُوپر دی ہوئی دو آیتوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ:
1. مشرک (جو خدا کے ساتھ شراکت دار ہے) کے ساتھ شادی کی اجازت نہیں ہے – مرد اور عورت دونوں کے لئے۔ کسی بھی صورت میں کوئی بھی ایسے شخص سے شادی نہیں کرسکتا جو خدا کے ساتھ شریک کرے۔ قرآن 2: 221
 
 
٢ .اهل کتاب کی خواتین کے ساتھ شادی کی اجازت ہے۔ قرآن 5 : 5۔ براہ کرم یہ بھی نوٹ کریں کہ 5 : 5 میں قرآن اهل کتاب کے لوگوں میں سے پاک دامن خواتین کے ساتھ شادی پر زور دیتا ہے۔
 
دونوں آیات کا مجموعہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ کتاب کے لوگوں میں سے صرف وہی خواتین نکاح کے لئے حلال ہیں جو مشرک نہیں ہیں۔
 
بہت سے لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ وہ بنا سیاق و سباق کےآیت 5 : 5   پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ تمام یہودی یا عیسائی عورتون کے ساتھ شادی کی اجازت ہے خواہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو۔ یہ تباہ کن غلط فہمی کسی خاص مسئلے پر قرآن کی اسی طرح کی تمام آیتوں کو دھیان میں نہ لانےاور نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ چلیے اسے آسان بناتے هین۔
 
اگر آپ کسی عالم سے پوچھتے ہیں – “قرآن ، سوره مائدہ ٥ : ٥  کتاب کے لوگوں کا کھانا کھانا جائز بنا دیتا ہے۔ تو کیا مسلمان یہودی یا عیسائی کا بنا ہوا سور کا گوشت کھا سکتا ہے؟ جواب ہوگا – “نہیں”۔ کیوں؟ کیونکہ ہمیں کھانے کے معاملے پر دیگر آیات کو دیکھنے کی ضرورت ہے اور پھر ٥ : ٥  کو سمجھنا چاہئے۔ جب ہم قرآن پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی سور کا گوشت ٤  جگہوں پر حرام کرتا ہے۔
سورہ بقرہ ٢ : ١٧٣ 
سوره مائدہ ٥ : ٣ 
سوره انعام ٦ : ١٤٥ 
سورہ نہل ١٦ : ١١٥
 
لہذا مناسب تفہیم یہ ہوگی کہ سور کا گوشت حرام ہے خواه وه مسلمان نے تیار کیا هو یا غیر مسلم نے۔ باقی تمام حلال کھانے کی اجازت هے جو اہل کتاب نے بنائے ہون۔
 
لہذا ٥ : ٥  عام اہل کتاب کے کھانے اور اہل کتاب کے ساتھ نکاح کا عام حکم دیتا ہے۔
 
٢ : ١٧٣  ، ٥ : ٣  ، ٦ : ١٤٥  ، ١٦ : ١١٥  – واضح کرتا ہے کہ سور کا گوشت ہر صورت میں ممنوع ہے
 
2: 221 – واضح کرتا ہے کہ مشرک کے ساتھ شادی ہر صورت میں ممنوع ہے۔
 
لہذا قرآن نے یہ بات بالکل واضح کردی ہے کہ صرف یہودیوں اور عیسائیوں کی خواتین ہی شادی کے لئے حلال ہیں جو خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہیں مانتی۔ یہ ممکن ہے کہ اہل کتاب کی کوئی خاتون  پیغمبر اکرم  یا آخرت کی زندگی پر یقین نہ کرے لیکن وہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہیں مانتی تو پھر اس کے ساتھ شادی کی اجازت ہے۔ تاہم اگر وہ مانتی ہے:
1. حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کا بیٹا ہونا۔
2. حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا ہیں
3.  تثلیث یعنی 3 خداؤں کا اتحاد
…… یا ایسی کوئی چیز جس سے وہ مشرک ہوجائے پھر ایسی خواتین کے ساتھ شادی کی اجازت ہر گز نہیں ہے۔
 
آج ہم اگر عملی طور پر سو چیں تو  بہت کم خواتین اس زمرے میں آئیں گی جن کے ساتھ شادی کی اجازت ہے
جواب : عربی زبان کا لفظ “تقویٰ “عموما ً خوف کے نام سے غلط ترجمہ  کیا جاتا ہے ۔اصل لفظ “و, ق, ی” محبت کی علامات ہیں۔
خدا سے ہمیں اس طرح نہیں ڈرنا چاہیے جیسے ہم جانور ،شیطان ،یا برے لوگوں سے ڈرتے ہیں۔
 
خدا سے ہمیں محبت کرنی چاہے۔
 
جب کسی کے لئے محبّت بہت حد تک بڑھ جاتی ہے تو پھر ایک خوف پیدا ہوتا ہے ، لیکن یہ خوف آپ کو جس سے پیار ہے اس کی نافرمانی سے روکتا ہے ۔
محبّت /خوف کے اس احساس کو تقویٰ کہتے ہیں جس کی قرآن مجید سفارش کرتا ہے ۔
 
قران (2:165) میں کہا گیا ہے کہ ” ایمان والوں کو تو الله ہی سے زیادہ محبت ہوتی ہے 
 
اس کے ساتھ ہی قرآن مومنوں کو ترغیب دلاتا ہے 
عام طور پر جس کا ترجمہ صرف ایک ہی معنی میں   اللّه کے “ڈر “سے کیا جاتا ہے ۔
مہربانی کر کے ذہین نشیں کریں کہ عربی کے مختلف الفاظ مختلف معنیٰ رکھتے ہیں لیکن عام طور پر ان کا ترجمہ صرف ایک ہی معنی میں “ڈر “سے ہی کیا جاتا ہے ۔
 
اللّه سے ڈرنے کا مطلب یہ نہیں ہے جیسے جانور ،بھوت ،آگ ،پانی میں ڈوبنے کا ہے۔۔
یہ ڈر اللّه سے شدید محبّت کا نتیجہ ہے ۔
 
مومن کو خداکی نا فرمانی  کے خوف سے گناہوں سے بچنا چاہیے ۔
 
**************************
 اکثر ، جب ہم اخرت/ عقیدہ / خدا پر گفتگو کرتے ہیں تو ہمیں ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں۔
 
 جو لوگ اس طرح کے بیانات دیتے ہیں وہ لوگ شاید خدا اور اخرت کے حقیقی تصور کے ساتھ پیش نہیں کیے تھے۔  جب کسی بھی فطری یا انسان ساختہ چیز کو خدا سمجھا جاتا ہے تو ، شائشتا یا سمجھدار شخص خدا کے اس قسم کے اعتقاد / تصور کو قبول کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔
 
 “میں انسانیت پر یقین رکھتا ہوں۔”  انسانیت کا کیا مطلب ہے؟
 
 کون فیصلہ کرے گا کے انسانی کیا ہے یا غیر انسانی کیا ہے؟  اخلاقیات یا غیر اخلاقیات کے   پیمانے کون طے کرے گا؟
 
 ایک ڈاکو یہ محسوس کرسکتا ہے کہ لوگوں کے قیمتی سامان کو لوٹنے سے وہ اپنے اور اپنے کنبے کے لئے جائز کمائی کررہا ہے جبکہ دوسری  طرف لٹنےوالا اس پر یقین کرے گا۔
 
 ایک کے لئے اخلاقی ہوسکتا ہے تو وہ دوسرے کے لئے غیر اخلاقی ہوسکتا ہے۔ دونوں جماعتیں اپنے عمل کو انصاف پسند اور انسانیت پسند سمجھتی ہیں۔
 
 ایک انسان کے لئے جو کچھ کیا انسانی ہے وہ دوسرے کے لئے غیر انسانی ہوسکتا ہے۔  ایک ہی خطے میں ایک اقدام کو جائز سمجھا جاتا ہے جبکہ دوسرے خطے میں یہ قابل سزا جرم ہوسکتا ہے۔
 
 مجرموں ، زمینوں پر قبضہ کرنے والوں ، قاتلوں کو ان کے عمل میں کوئی غلطی نہیں پائی جاتی ہے ، وہ اسے اپنی بقا کی ضرورت سمجھتے ہیں۔  جب کہ متاثرہ انصاف مانگتا ہے کیونکہ اس پر ظلم کیا گیا تھا۔
 
 یہاں سوال اختیار کے بارے میں ہے جو صحیح اور غلط کے مابین ایک لکیر کھینچے گا۔  انسانیت اور غیر انسانیت کے درمیان  حدود طے کرنے کا اختیار کس کو ہے؟
 
 عقل مند کہتے ہیں کہ انسانیت / غیر انسانیت ، اخلاقیات / غیر اخلاقیات کی تعریف صرف اسی صورت میں کی جاسکتی ہے جب کسی کو  اعلی اختیار حاصل ہو۔ – وہ جو مکمل طور پر غیر جانبدار اور انصاف پسند ہو ، وہ جو انسانی کمزوریوں سے آزاد ہو اور قطعی انصاف کرنے کے قابل ہو۔
 
 وہ خالصں جج ہمارا خالق ہے۔  وہ جانتا ہے کہ بنی نوع انسان کے لئے کیا اچھا ہے اور کیا برا۔  خالق وہی ہے جس کو ہم خداتعالیٰ کے نام سے پکارتے ہیں۔  انسان کو فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہو سکتا ، اور کوئی بھی انسان کسی دوسرے انسان کے سارے حالات ، صلاحیتوں ، حدود وغیرہ کو جاننے کے قابل نہیں ہوتا ہے تاکہ وہ بالکل منصفانہ فیصلے کر سکے۔
 
 خداتعالیٰ وہی ہے جس نے اپنے خدائی انکشافات کے ذریعہ اخلاقیات کے پیمانے طے کیے ہیں۔  خدا اخلاقی / انسانی اقدار کا بہترین ذریعہ  ہے اور جب تک احتساب کا کوئی ایسا نظام موجود نہ ہو جب تک یہ اقدار درست طور پر کام نہیں کرتی ہیں ، جو ہر ایک کو اس کے اعمال کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔  احتساب کا یہ ایک ہی نظام ہے جسے ہم آخرت /   پر لوک جیون کہتے ہیں۔  سب کو ان کا حق ملے گا چاہے وہ انصاف پسند ہوں یا غیر انصاف پسند ۔  چاہے وہ انسانیت پسند ہو یا غیر انسانیت۔
 
 تصورِ انسانیت دو مراحل میں کام کرتا ہے:
 
 خدا نے جسں کام کے کرنے اور نہ کرنے کی اجازت دی اس کی پیروی کرتے ہوئے ، خدا کی ہدایت پر عمل کرنا۔
 
 کسی کے اعمال کے لئے اخرت  میں جوابدہ ہونا۔
 
 اگر احتساب کا کوئی تصور نہیں ، اس کے بعد زندگی کا کوئی تصور نہیں تو پھر انسانیت / اخلاقیات  کا کوئی معنی نہیں۔
 
اخرت کی زندگی:ایک منطقی ضرورت۔
 
 زندگی کی سب سے یقینی چیز: موت
 
 انتہائی غیر یقینی چیز: موت کب آئے گی!
 
 یودھیشیر سے پوچھا گیا – “سب سے حیرت کی بات کیا ہے”؟  اس نے جواب دیا:
 
 
अहन्यहनि भूतानि गच्छन्ति यममन्दिरम् ।  शेषा जीवितुमिच्छन्ति किमाश्चर्यमतः परम् ॥
 
 
हर रोज़ कितने हि प्राणी यममंदिर जाते हैं (मर जाते हैं), वह देखने के बावजुद अन्य प्राणी जीने की इच्छा रखते हैं, इससे बडा आश्चर्य क्या हो सकता है ?
 
 
 
 “ہر روز لوگ مرتے ہیں اور خدا کی طرف لوٹ جاتے ہیں ، پھر بھی لوگ اس دنیا میں رہنے کی خواہش رکھتے ہیں – یہ سب سے حیرت انگیز ہے”۔
 
 
 لیکن ، موت کے بعد کیا ہوتا ہے؟
 
 لوگوں کی آخرت اور موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں مختلف رائے ہے۔
 
 • مسٹر اے اواگامن کے تصور پر یقین رکھتے ہیں (بار بار مختلف شکلوں میں پیدا ہوتے ہیں)۔  آپ لاکھوں بار زندگی ۔ موت۔زندگی۔موت  سے گزر رہے ہیں۔
 
 • مسٹر بی قیامت اور فیصلے کے دن (کسی کے اعمال کا جوابدہ ہونا) کے تصور پر یقین رکھتے ہیں۔  آپ اواگامن سائیکل سے نہیں گزریں گے۔  آپ کو قیامت کے دن زندہ کیا جائے گا اور آپ کے اعمال کا جوابدہ ہوگا۔
 
 • مسٹر سی کا ماننا ہے کہ موت کے بعد کچھ نہیں ہونے والا ہے۔  مرنے کے بعد دوبارہ جنم نہی لینا۔  اس کے بعد کی زندگی نہیں۔
 
 # ارب ڈالر کا سوال:
 
 # کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے تین اقسام کے افراد اپنی موت کے بعد تین مختلف نظاموں کا تجربہ کریں گے؟
 
 # مسٹر اے نے ان کی موت کے بعد جانور / پودوں / انسان کی شکل میں جنم لیا لیکن مسٹر بی اور مسٹر سی نے ان کی موت کے بعد جنم نہیں لیا۔  کیا یہ منظر نامہ ممکن ہے؟
 
 بالکل نہیں!
 
 موت کے بعد جو بھی نظام موجود ہے – ہر انسان کے لئے اس کے عقیدے سے قطع نظر یکساں ہونا چاہئے۔  آپ اتفاق کرتے ہیں؟
 
 قدرت کے قوانین سب کے لئے یکساں ہیں!
 
 سی۔  اخرت کی زندگی  یا پرلوک جیون:
 
 ا خرت ایک ایسا نظام ہوگا جہاں پوری انسانیت قیامت کے دن زندہ ہوگی اور ہر ایک کو اس کے اعمال کا جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔
 
 احتساب قدرت کا قانون ہے۔ ہے نا؟  آپ کو اپنے اعمال کی قیمت ادا کرنا چاہئے – چاہےنیک ہو یابد اعمال۔
 
 زندگی کے بعد یا پارلوک جیون کے ذریعے ، ہر انسان کو خالص انصاف فراہم کیا جائے گا۔
 
 # خالص  انصاف کی ضرورت ہے
 اس دنیا میں ، بہت سے لوگ ہیں جو تقویٰ کی زندگی گزارتے ہیں۔  وہ دوسروں کے ساتھ اچھے رہتے ہیں ، وہ خدا کے تابع ہیں ، خدا کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں ، برے کاموں سے باز آتے ہیں۔  لیکن بعض اوقات ان لوگوں کو دوسروں کے ذریعہ مختلف پریشانیوں میں گھسیٹا جاتا ہے ، یا تو اسے کسی وجہ یا غلطی کی وجہ سے تکلیف دی جاتی ہے یا سزا دی جاتی ہے۔  یہ اچھے لوگ مظلوم ہیں ، اذیت کا شکار ہیں اور اپنی موت تک کئی بار مصائب میں رہتے ہیں۔
 
 کیا آپ کو لگتا ہے کہ ایسے اچھے لوگوں کے ساتھ انصاف کیا گیا؟
 
 اسی طرح ، ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ ہیں جو دوسروں کو ہمیشہ تکلیف دیتے ہیں یا دھوکہ دیتے ہیں اور لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں۔  لیکن انصاف کے نظام میں ان کے زیادہ اثر و رسوخ یا رابطوں کی وجہ سے انہیں سزا نہیں ملتی ہے۔  اگرچہ وہ برے کاموں میں ملوث ہیں لیکن پھر بھی انہیں ان کے اعمال کی سزا نہیں ملتی ہے ، لیکن وہ اپنی موت تک بہت آرام سے زندگی گزارتے ہیں۔  اس دنیاوی نظام عدل میں تمام قاتلوں ، عصمت دریوں ، ڈاکوؤں ، مجرموں کو سزا نہیں دی جاتی ہے۔
 
 کیا یہ برے لوگوں نے اپنے برے اعمال کے سبب انصاف کی خدمت کی؟
 
 آج کی دنیا میں بے انصافی کی جارہی ہے۔  کئی مرتبا ، نظام ہر فرد کے لئے مناسب نہیں ہوسکتا ہے۔  “غالبا ٹھیک ہے” عام طور پر کام کرتا ہے۔
 
 کیا یہ کہانی کا اختتام ہوسکتا ہے؟  اچھے لوگوں اور برے لوگوں کیلےاب بھی مکمل انصاف باقی ہے۔
 
  اک عام سمجھ بوجھ کا کہنا ہے کہ ایک ایسا نظام ہونا چاہئے جس میں ہر فرد کو اپنے اعمال کے مطابق انصاف فراہم کرنا چاہئے۔
 
 # پرلوک یا اس کے بعد کی زندگی یا موت کے بعد کی زندگی۔
 
 یہ نظام عدل اس شکل میں ہوگا:
 
 قیامت –  انصاف کے دن دوسری زندگی پانا۔
 
 جنت – نیک اعمال والوں  کے لئے انعام کی جگہ – نیک روحیں۔
 
 جہنم – دراچاری ، ادھرمی اور شریر لوگوں کے لئے عذاب کی جگہ۔
 
 آخرت /  پر لوک میں انصاف کون کرے گا؟  جواب: ہمارا خالق۔
 
 کیا ہوگا اگر بنی نوع انسان سے موت کے بعد ان سے پوچھ گچھ یا احتساب نہیں کیا جائے گا؟
 
 پوری دنیا ایک گندگی اور افراتفری کا شکار ہوگی۔  کسی کو بھی اس کے اعمال کی پرواہ نہیں ہوگی اور صرف اس دنیاوی نظام میں سزا پانے سے بچنے کی کوشش کرے گی۔
 
 آخرت کی زندگی کے تصور کے بغیر انسانیت کا کوئی تصور نہیں ہے
سائنس کا مضمون خدا کے قوانین کی دریافت سے متعلق ہے۔ فطرت کے قوانین انہی شرائط کے تحت نا قابل تبدیل ہیں۔ ہم ان قوانین پر جتنا زیادہ غور و فکر کرتے ہیں -تواتنی ہی بہتر چیزیں ہم انسانیت کیلے  لاتے ہیں۔
 
سائنس ہماری روز مرہ کی زندگی میں بے پناہ مدد کرتا ہے۔ ہماری الارم گھڑی سے لے کر صحت تک کی دوائیں۔ سبھی سائنس کے احاطہ میں ہیں۔
 
 بیک وقت میں ، سائنس کی اپنی حدود ہیں۔ سائنس سے زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کی توقع کرنا سراسر ناانصافی ہوگی۔
 
سائنس کی فطرت ایسی ہے کہ وہ ہمیں جذباتی اور ذہنی طور پر بہتر انسان نہیں بنا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ، سائنس اخلاقی اقدار ، اخلاقیات یا معاشرتی سلوک کے بارے میں بات نہیں کرتی ہے۔ اس میں کسی کے والدین کی فرمانبرداری، کسی کی شریک حیات سے محبت کرنے ، بچوں کی دیکھ بھال کرنے یا کسی مسکین کی مدد کرنے کی بات نہیں کی جاتی ہے۔
 
اسی طرح ، سائنس کسی کے ضمیر کو نہیں جگاتی ہے اور ایک کو دوسرے سے نقصان پہنچانے سے نہیں روکتی ہے۔
 
 جدید سائنس  کی تجربہ گاہ میں  ‘ جنسی استحصال کی روک تھام’ کیلے HR policy پر کام جاری ہے ۔ تاہم ، سائنس نے کبھی ہمیں یہ نہیں سکھایا کہ اخلاقی طور پر صحیح جنسی سلوک کیا ہے!
 
اگرچہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں سائنس کی بہت زیادہ ضرورت ہے ، لیکن اس سے ہمارے وجود کے بڑے تناظر کا احاطہ نہیں ہوتا ہے جیسے:
 
ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟
 
 کون سے اقدامات فائدہ مند ہیں اور کون سے اقدامات نقصان دہ ہیں
غربت ، منشیات کی لت  ،عصمت دری , ڈکیتی ، قتل وغیرہ سے نجات کے لئے کون سے قوانین نافذ کرنے چاہیں؟
 زندگی اور معاشرے میں ‘امن’ کیسے حاصل کیا جائے؟
 
سائنس ان سےمتعلقہ سوالوں کے جواب نہیں دیتی ہے۔
 
لہذا ، ہمیں ایک ایسے ذات کی ضرورت ہے جو ہمارے علم کی اساس کے طور پر سائنس سے کہیں زیادہ بڑے خیال وعمل کا احاطہ کرے۔ اور وہ ہے ‘اللہ تعالیٰ کی رہنمائی ‘۔
 
ہمیں اس کی رہنمائی کی ضرورت ہے جس نے بنی نوع انسان کو پیدا کیا ہے ، کوئی ایسا  جو سب سے بہتر جانتا ہو کہ انسانیت کے لئےمجموعی طور پر کیا اچھا ہےاور کیا برا ہے ،کوی ایسا جو غیر جانبدار ہے۔
 
* خدا کی ہدایت پر عمل کرنا خدا کا دین کہلاتا ہے۔ *
 
اور یہ ہدایت ہمیں بتاتی ہے کہ خدا کے تخلیق کردہ قوانین اور معاملہ پر غور کریں اور ان کو اپنے اور معاشرتی بھلائی کے لئے استعمال کرے۔
مختلف الفاظ اور سلوک کی مختلف قسمیں ہیں – مختلف حالات کے لئے۔
 
 
 عزت ,احترام ، پیار ، محبت، عرض ، تعریف ، مدحت – مختلف حالات کیلے مختلف الفاظ ہوتےہیں۔
 
آپ والدین کا احترام اور ان سے محبت کرتےہوں۔
 
آپ کسی کرکٹر یا کسی کے بہادری کے عمل کی تعریف کرتے ہوں۔ لیکن وہ آپ کے والدین کی جگہ نہیں لے سکتے ہیں۔ آپ اپنے والدین سے جس طرح پیار کرتے ہیں ویسی محبت ان سے  نہیں کرسکتے.
 
آپ اپنے شریک حیات سے محبت کرتے ہوں۔ ویسی محبت اپ اپنے پڑوسی سے نہیں کرتے۔

آپ اپنے اپ کو خدا کے سپرد کردے ۔ آپ کی ساری زندگی خدا کی ہدایت کے مطابق بسر ہونی  چاہئے۔
 خدا کی جگہ  کوئی بھی نہیں  لےسکتا۔

 آپ جانوروں سے پیار کا اظہار کرتے ہیں ،لیکن یہ اظہار محبت ویسا نہیں ہوتا جسں طرح سے اپ اپنے بچوں سے کرتے ہیں۔

 آپ پھولوں ، پرندوں ، آسمان ، سمندروں ، پہاڑوں ، سورج ، چاند وغیرہ کی خوبصورتی کی تعریف کرتے ہیں۔ یہ چیزیں ایسے ماسٹر ڈیزائنر کی دلیل ہیں جن کو ہم خدا کہتے ہیں۔

اپنے مدار پر گردش کرتے اور گھومتے ہوئے سیارے ، کہکشائیں اور یہ عظیم کائنات ہمارے خالق کی عظمت کا اظہار کرتے ہیں۔

تو – کون تعریف کا مستحق ہے اور کون عبادت کا مستحق ہے؟

یقینا  سورج ، چاند ، ستارے تخلیق ہیں اور ان کی تخلیق کے پیچھے  ہمارا خالق ہے۔

ہمیں خدا کی عبادت کرنی چاہئے اور اس سےسب سے زیادہ پیار کرنا چاہئے کیونکہ اس نے ہمیں صرف ماں ، باپ ، شریک حیات ، پھول ، پرندے ، چاند ، ستارے وغیرہ عطا کیے۔

ہر سانس ہم لیتے ہیں تو یہ خدا کی طرف سے ہے۔

جب آپ اپنے والدین سے محبت کرتے ہیں اور ہر چیز جو آپ کے اطراف ہیں دیکھتے ہیں اور آپ  اپنےخالق – اپنے رب کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں جو ہماری خوشی کے پیچھے اصل وجہ ہے جو اس سے بلا جواز ہے۔

متوازن عمل صرف سورج ، چاند ، پھول ، فطرت کی تعریف کرنا ہے اور صرف  خدا کی عبادت کرنا ہے جس نے ان تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے۔

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer

Answer